Monday 31 August 2015

اب تو وہ روزِ قیامت ہی اُٹھے گا

اب بس کردو، کچھ وقت اپنے بیوی بچوں کو بھی دے دو۔ لیکن وہ ہر کسی کو یہ ہی جواب دیتا کہ یہ سب اُنہیں کے لئے تو کر رہا ہوں۔
وہ ماں باپ کا اکلوتا بیٹا تھا، گاؤں کے لحاظ سے اُسکی تعلیم بس واجبی ہی تھی، کیونکہ اُسکا بچپن کھیتوں میں گذرا، شناختی کارڈ پاسپورٹ بنتے ہی ملک سے باہر جانے کی تگ و دو شروع ہوگئی، کسی واقف کار نے ویزہ لگوا دیا۔ تنخواہ کم تھی مگر جذبہ جوان تھا۔ وہ وہاں کام کرتا رہا اور ماں باپ کو پیسے بھیجتا رہتا، سال پر سال گزرتے گئے مگر اُس کے پاس ملک واپس آنے کے لئے ٹکٹ کے پیسے جمع نہ ہوئے۔
ساڑھے چار سال بعد اُدھار لے کر واپس آیا، ماں باپ نے خاندان میں ہی ’’چاند سی بہو‘‘ بھی تلاش کرلی اور پھر منگنی ہوگئی۔ منگنی کرتے ہی وہ واپس چلا گیا۔ اگلی بار واپسی 5 سال بعد ہوئی اور واپسی کے ساتھ ہی اُس کی شادی کردی گئی۔ پہلے منگنی کرکے واپس گیا تھا اب شادی کرکے چلاگیا۔ لیکن وہاں پہنچتے ہی ماں کی موت کی خبر ملی۔ وقت پر فلائیٹ نہ ملنے پر ماں کے جنازہ کو کندھا نہ دے سکا۔ اب ڈیرھ سال ہی گزرا تھا کہ باپ بھی وفات پاگیا۔ باپ کو امانتاً دفن کروایا گیا۔ پیسوں کی ہوس کے سبب وہ ماں باپ دونوں کے جنازوں کو کندھا نہ دے سکا، واپس آکر باپ کا آخری دیدار قبر میں ہی کیا۔
چونکہ اُس کی شادی ہوگئی تھی اب نیا گھر بنانے کی جستجو میں لگ گیا۔ ہر دو سال بعد 30 دن منہ دکھائی کے لئے آتا اور بیوی کو 9 مہینوں کی مصروفیت دے کر چلا جاتا۔ 4 پھیروں اور 8 سال میں، 4 بچے ہوگئے۔ لیکن بیوی تنہائی کی حدت برداشت نہ کرسکی اور سرگوشیاں سرعام تذکروں میں بدلنے لگیں۔ یار دوست اور خیر خواہ دبے الفاظ میں اُسے سمجھانے لگے اور وطن واپس آنے کے مشورے دینے لگے، مگر،
 ’’اُسے اپنی شریکِ حیات پر یقین تھا‘‘
جب والدین اخلاقی طور پر کمزور ہوں تو اولاد کے کردار کو بھی زنگ لگ جاتا ہے، اُس کے تین بیٹے اور ایک بیٹی بھی جوانی کے گھوڑے پر سوار ہوکر جس سمت منہ ہوا دوڑ پڑے، مگر اُسے اپنے بچوں پر بھی یقین تھاـ جب اُسکی ٹھوڑی کے نیچے دوسری ٹھوڑی بھی ابھر آئی، جوانی پگھل کر پکی عمر بن گئی تو لوگوں نے پھر مشورہ دیا کہ اب بس کردو، کچھ وقت اپنے بیوی بچوں کو بھی دے دو۔ لیکن وہ ہر کسی کو یہ ہی جواب دیتا کہ یہ سب اُنہیں کے لئے تو کر رہا ہوں، وہ اچھے اسکول میں پڑھیں، اچھا کھائیں، اچھا پہنیں، اچھے گھر میں رہیں، بچوں کو پیسے کی کمی نہ ہو، کسی کے آگے ہاتھ نہ پھیلانا پڑے، میں اور میرا خاندان عزت سے رہ سکیں۔
مگر اُسے یہ معلوم نہیں تھا، کہ بچے اچھے اسکول میں داخل تو تھے، مگر سر پر باپ کا سایہ نہ ہونے کی وجہ سے اچھا کھا کر، اچھا پہن کر اچھے اسکول کے نام پر وہ کہاں دن گذارتے تھے اُسے کیا معلوم؟ بیوی کو آسائش تو تھی لیکن اس آسائش اور فراوانی نے اُسے کن راہوں کا مسافر بنا دیا تھا۔ اُسے ہاتھ تو کسی کے آگے نہیں پھیلانا پڑا مگر عزت پھر بھی نہ بچی ۔۔۔۔ وہ ساری زندگی دولت کی تاروں سے عزت کی چادر بنتا رہا، اُسے خبر ہی نہ ہوئی کہ عزت کی وہ چادر اُس کے اپنے ہی خاندان کے ہاتھوں کب کی تار تار ہو چکی تھی۔
آج وہ کام سے واپس آیا تو غیر معمولی طور پر خوش نظر آرہا تھا، جلدی جلدی نہایا، کپڑے بدلے، اور کچن میں گھس گیا۔ سالن بنانے کی تیاری شروع کردی، کچن میں کچھ گرنے کی آواز آئی۔
سوچتا ہوں اب اُس کے بچے اچھے اسکول میں کیسے پڑھیں گے؟ اب اُسکی بیوں کو کون آسائش دے گا، وہ آسائش جس لئے اُس نے اپنے دن آگ میں اور رات انگاروں پر گزاردی؟ جس آسائش کے لئے اُس نے اپنے یار دوست، رشتہ دار چھوڑے، ماں باپ لاوارثوں کی طرح آخری سفر پر روانہ ہوئے، جس آسائش کے لئے اُس نے اپنی تمام آسائشوں اور سکون کی قربانی دے دی، اب وہ آسائشیں کون فراہم کرے گا؟
’’کیونکہ محض 40 کے پیٹے میں ہی وہ کچن کے فرش پر ایسا گرا کہ اب تو وہ روزِ قیامت ہی اُٹھے گا‘‘
کیا پیسے کمانے کے لیے گھر والوں سے دور رہنا چاہیے؟

ورنہ آپ فارغ ہو جائیں گے مزید پڑھئے


                                                                                                           
                                                                                                                                                                  ہماری زندگی میں تین قسم کے رشتے ہوتے ہیں، ہم ان میں سے دو قسم کے رشتوں کو بدل سکتے ہیں، ہمیں دوست پسند نہیں، ہم ان سے قطع تعلق کر کے نئے دوست بنا سکتے ہیں، ہمیں ہمسائے، شہر، معاشرہ، کلاس فیلوز اور کولیگس پسند نہیں ہیں، ہم انھیں بھی چینج کر سکتے ہیں لیکن ہم کچھ بھی کر لیں، ہم خواہ لانگ مارچ کریں، ہم دھرنا دیں، ہم ایک لاکھ موٹر سائیکل سڑک پر لے آئیں یا پھر ہم جوڈیشل کمیشن بنا لیں ،ہم اپنے خونی رشتوں کو نہیں بدل سکتے، ہماری ماں، ہماری ماں، ہمارا والد ہمارا والد، ہماری بہن ہماری بہن اور ہمارے بھائی ہمارے بھائی ہی رہیں گے۔
ہم خون کا رشتہ تبدیل نہیں کر سکیں گے، کیوں؟ کیونکہ یہ رشتہ خون کا ہوتا ہے اور انسان خونی رشتے تبدیل کرنے پر قادر نہیں ہوتا، آپ نے زندگی میں بے شمار لوگوں کو اپنے خونی رشتوں سے قطع تعلق کرتے دیکھا ہو گا، بھائیوں نے بہن کو چھوڑ دیا ہوگا، بیٹا باپ کو چھوڑ کر چلا گیا ہو گا، ماں نے مرنے تک بیٹے کا منہ نہیں دیکھا ہو گا اور باپ نے اپنے بیٹے یا بیٹی کو عاق کر دیا ہو گا لیکن کیا اس قطع تعلق کے بعد وہ رشتہ ختم ہو گیا؟ نہیں، ہرگز نہیں، باپ اولاد کو عاق کرنے کے باوجود اس کا باپ اور بیٹا عاق ہونے کے باوجود بیٹا رہا، ماں چالیس سال بچوں کو نہیں ملی لیکن وہ اس کے باوجود ان کی ماں رہی، صدر اوباما کا والد شادی کے تین سال بعد ان کی والدہ این ڈنہم کو طلاق دے کرکینیا واپس چلا گیا، صدر اوباما نے اپنے والد کی شکل تک نہیں دیکھی لیکن اس کے باوجود بارک اوباما سینئر صدر اوباما کے والد ہیں اور یہ ہمیشہ رہیں گے۔
صدر اوباما کے والد نے دسمبر 1964ء میں رتھ بیٹرک بیکر سے تیسری شادی کر لی، رتھ بیٹرک سے ان کے دو بچے ہیں، صدر اوباما چاہیں یا نہ چاہیں، یہ بچے بہرحال صدر اوباما کے بہن بھائی ہیں اور صدر اوباما اس رشتے سے انکار نہیں کر سکتے، ہم انسان رشتوں کے اس شکنجے سے کبھی باہر نہیں نکل سکتے! اب سوال یہ ہے ،ہمارے یہ رشتے بناتا کون ہے؟ ہمارے یہ رشتے ہماری سولائزیشن بناتی ہے، انسانی تہذیب نے ان رشتوں تک پہنچنے کے لیے لاکھوں سال پیدل سفر کیا اور یہ پھر انسان کو یہ سمجھانے میں کامیاب ہوئی، خونی رشتے پتھر کی لکیر ہوتے ہیں اور انسان کو پتھر کی یہ لکیریں چھیڑنی نہیںچاہئیں، انسان کا دوسرا نتیجہ آئین اور تیسرا قانون ہے، ہم لاکھوں کروڑوں سال کے سفر کے بعد اس نتیجے پر پہنچے ہیں۔
آئین کے بغیر ریاست اور قانون کے بغیر معاشرہ نہیں ہو سکتا، قانون معاشرے کو بناتا ہے اور آئین ریاست کی بنیاد ہے، زمین کا کوئی ٹکڑا اس وقت تک صرف زمین کا ٹکڑا رہے گا، وہ ریاست نہیں کہلائے گا جب تک اس کا کوئی آئین نہیں بن جاتا اور لوگوں کا ہجوم اس وقت تک ہجوم رہے گا، معاشرہ نہیں بنے گا جب تک وہ اپنے لیے قانون نہیں بنا لیتا، پیچھے رہ گیا انصاف! انصاف رشتے، آئین اور قانون تین پائیوں کا تخت ہوتا ہے، دنیا کی جس مملکت میں رشتے، آئین اور قانون نہ ہوں اس مملکت میں انصاف نہیں ہوتا، دنیا کی جس مملکت میں یہ تینوں پائے کمزور ہوں، اس میں انصاف بھی کمزور ہوتا ہے اور جس مملکت میں یہ تین پائے مضبوط ہوں، اس میں انصاف کا عمل، انصاف کا تخت بھی توانا ہوتا ہے۔
آپ مجھے دنیا کا کوئی ایسا ملک دکھائیں جس میں آئین اور قانون نہیں لیکن وہاں انصاف موجود ہے یا آپ مجھے دنیا کا کوئی ایسا ملک دکھا دیں جس میں آئین اور قانون کمزور ہیں لیکن انصاف کا نظام مضبوط ہے، آپ کو 245 ملکوں میں کوئی ایسا ملک نہیں ملے گا، اب سوال یہ ہے رشتوں کو رشتہ، آئین کو آئین اور قانون کو قانونی شکل کیسے ملتی ہے؟ نکاح رشتے کو رشتہ، آئینی ادارے آئین کو آئین اور قانون نافذ کرنے والے ادارے قانون کو قانون بناتے ہیں، ملک، ریاست یا معاشرے میں نکاح کا نظام جتنا واضح اور ٹھوس ہو گا، رشتے بھی اتنے ہی ٹھوس اور واضح ہوں گے، آئینی ادارے جس قدر صاف، شفاف اور غیر متنازعہ ہوں گے، ملک کا الیکشن کمیشن جتنا معزز، شفاف اور آزاد ہو گا، پارلیمنٹ جتنی خود مختار، طاقتور اور صاف ہو گی، احتساب کے ادارے جس قدر معتبر اور باوقار ہوں گے اور چیف جسٹس، افواج کے سربراہان، صدر اور گورنرز جس قدر اپ رائٹ اور بے داغ ہوں گے۔
ملک کا آئین بھی اتنا ہی صاف، معزز اور قابل احترام ہو گا اور ملک کے قانونی ادارے بھی جتنے مضبوط، بے لچک اور خودمختار ہوں گے، پولیس مجرم کی شکل نہیں جرم دیکھے گی، ایف آئی اے ملزم کا عہدہ نہیں دیکھے گی، جرم دیکھے گی اور احتساب کے اہلکار بھی صرف قاعدے کے مطابق کام کریں گے، حکومتوں کی مصلحت اور آقاؤں کی منشاء کی تلوار نہیں اٹھائیں گے تو قانون بھی مضبوط ہو جائے گا اور جب رشتے، آئینی ادارے اور قانونی محکمے مضبوط ہوں گے تو ملک میں انصاف بھی آ جائے گا، دنیا کی کوئی طاقت اسے آنے سے نہیں روک سکے گی۔
ہمیں یہ ماننا ہو گا، ہمارے ملک کے آئینی اور قانونی ادارے کمزور بھی ہیں اور یہ حکومتوں اور ملٹری اسٹیبلشمنٹ کے غلام بھی ہیں اور ہمیں یہ بھی ماننا ہوگا ،ہم جب تک ان اداروں کی اصلاح نہیں کریں گے، ملک میں اس وقت تک حقیقی تبدیلی نہیں آئے گی، اب سوال یہ ہے ان اداروں کی اصلاح کون کرے گا؟ ملک کے آئینی، قانونی اور سماجی اداروں کی ’’اوورہالنگ‘‘ کس کی ذمے داری ہے اور یہ تمام اصلاحات ہوں گی کہاں؟ یہ اصلاحات بہرحال پارلیمنٹ اور صوبائی اسمبلیوں میں ہوں گی اور یہ ہمارے سیاستدانوں ہی کو کرنی پڑیں گی، دنیا میں دس ہزار سال کی روایات توڑ کر نئی روایات قائم کرنا مشکل لیکن ان کی اصلاح کرنا آسان ہوتا ہے لیکن ہم مدت سے آسان کے بجائے مشکل کام کرنا چاہ رہے ہیں۔
ہم نے پولیس کا ڈیڑھ سو سال پرانا ادارہ توڑ کر نیا بنانے کی کوشش کی، ہم ناکام ہو گئے، ہم نے ڈی سی سسٹم ختم کیا، ہم نیا نہ بنا سکے، ہم اب الیکشن کمیشن کے پیچھے پڑ گئے ہیں، کیا ہم اس میں کامیاب ہو جائیں گے، ہو سکتا ہے ہم اس بار کامیاب ہو جائیں لیکن ہمیں ہتھوڑے چلانے سے قبل موجودہ سسٹم کا جائزہ لے لینا چاہیے، الیکشن کمیشن چار ارکان اور چیف الیکشن کمشنر پر مشتمل ہوتا ہے، اٹھارہویں ترمیم سے قبل چیف الیکشن کمشنر کا تقرر صدر کرتے تھے جب کہ ارکان کا فیصلہ چیف الیکشن کمشنر کی صوابدید پر ہوتا تھا، چیف نشست خالی ہونے پر ہائی کورٹس کے چیف جسٹس صاحبان سے ججز کی فہرست منگواتے تھے۔
اس میں سے کوئی جج منتخب کرتے تھے، اس کا نام صدر کو بھجوا دیتے تھے اور صدر نوٹیفکیشن جاری کر دیتے تھے، 8 اپریل 2010ء کو اٹھارہویں ترمیم ہوئی اور یہ سسٹم بدل دیا گیا، اب چیف الیکشن کمشنر اور چاروں ارکان کا فیصلہ وزیراعظم اور اپوزیشن لیڈر مل کر کرتے ہیں، یہ اگر کسی نام پر متفق نہ ہوں تو یہ ایشو بارہ رکنی پارلیمانی کمیٹی کے پاس چلا جاتا ہے، کمیٹی میں پارلیمنٹ میں موجود ارکان کی تعداد کے مطابق تمام سیاسی جماعتوں کی نمایندگی ہے، چیئرمین کا فیصلہ ارکان کرتے ہیں، یہ کمیٹی الیکشن کمیشن کے چیف اور ارکان کا فیصلہ کرتی ہے۔
الیکشن کمیشن کے ارکان کا تقرر پانچ سال کے لیے ہوتا ہے، انھیں کمیشن سے فارغ نہیں کیا جا سکتا، حکومت یا کوئی جماعت انھیں فارغ کرنا چاہے تو اس کے صرف دو طریقے ہیں، یہ ارکان خود مستعفی ہو جائیں یا پھر ان کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں باقاعدہ ریفرنس دائر کیا جائے، یہ کونسل رکن کو فارغ کرنے کے لیے وہی طریقہ اختیار کرے گی جو سپریم کورٹ کے ججوں کو نکالنے کے لیے کیا جاتا ہے، یہ قانونی اور آئینی طریقہ ہے، آپ کچھ بھی کر لیں، آپ دھرنا دے لیں یا بھوک ہڑتال پر چلے جائیں، آئین آئین ہی رہے گا، قانون قانون ہی رہے گا، آپ اسے دھرنے کے ذریعے نہیں بدل سکیں گے، ہم اب یہ فرض کر لیتے ہیں، الیکشن کمیشن کے ارکان عمران خان کے دھرنے سے گھبرا کر مستعفی ہو جاتے ہیں۔
اس کے بعد کیا ہو گا؟ اس کے بعد ایک بار پھر وزیراعظم اور اپوزیشن لیڈر سید خورشید نئے ارکان کا فیصلہ کریں گے، یہ دونوں اگر فیصلہ نہیں کرتے تو فیصلہ پارلیمانی کمیٹی میں جائے گا اور وہاں پی ٹی آئی کے پاس صرف ایک یا دونشستیں ہوں گی چنانچہ وہاں بھی فیصلہ وہ لوگ کریں گے جنھیں آپ دو سال سے لتاڑ رہے ہیں اور وہ فیصلہ کیا ہوگا اس کا اندازہ آپ آج ہی لگا سکتے ہیں لہٰذا پھر اس ساری جدوجہد کا ایک اور ناکامی کے سوا کچھ نتیجہ نہیں نکلے گا، آپ پھر اپنے آپ اور اپنے کارکنوں کو نئی مصیبت میں ڈالنے کے بجائے وہ سیدھا اور سادہ طریقہ استعمال کیوں نہیں کرتے جس سے آپ کی آرزو بھی پوری ہو جائے اور سسٹم بھی ٹھیک ہو جائے، پاکستان پیپلز پارٹی اس ایشو پر آپ کی مدد کے لیے تیار ہے۔
شاہ محمود قریشی اور خورشید شاہ کے درمیان ملاقات بھی ہو چکی ہے، آپ قومی اسمبلی میں تحریک پیش کریں اور یہ طریقہ کار بدل دیں، آپ یہ معاملہ اصلاحاتی کمیٹی میں بھی لے جا سکتے ہیں، آپ وہاں الیکشن کمیشن کے ارکان کی تقرری اور برخاستگی دونوں کا نیا طریقہ کار وضع کر لیں، ہمارے پاس جب قانونی اور آئینی طریقہ موجود ہے تو ہم اس پر عمل کیوں نہیں کرتے؟ عمران خان پورا سال سڑکوں پر رہے، کیا حاصل ہوا؟ فیصلہ بہرحال آئینی جوڈیشل کمیشن اور آئینی ٹریبونل ہی نے کیا چنانچہ یہ دھرنا بھی پچھلے دھرنے کی طرح ناکام ہو جائے گا، اگر ایسا نہ ہوا اور الیکشن کمیشن کے چاروں ارکان مستعفی ہو گئے تو ملک میں ایک نیا آئینی بحران پیدا ہو جائے گا، الیکشن کمیشن ٹوٹ جائے گا، بلدیاتی الیکشن اور ضمنی الیکشن دونوں ملتوی ہو جائیں گے اور الیکشن کمیشن کے نئے ارکان کی تقرری کے لیے سیاسی لڑائی شروع ہو جائے گی۔
حکومت آئین کے دائرے میں رہ کر تقرری کی پابند ہے اور یہ پابندی عمران خان کے لیے قابل قبول نہیں ہوگی، یہ اپنی مرضی کرانا چاہیں گے، حکومت نے اگر اس وقت ’’انجوائے،، کرنے کا فیصلہ کر لیا تو یہ عمران خان کی بات مان کر پی ٹی آئی کو شادیانے بجانے کا موقع دے دے گی، نئے ارکان منتخب ہوں گے لیکن ان کا انتخاب سپریم کورٹ میں چیلنج ہو جائے گا اور یوں وہ ادارہ جس نے ملک کو طاقتور ترین آئینی ادارے دینے ہیں وہ معطل ہو کر رہ جائے گا اور اگر عمران خان کا مقصد یہ ہے تو پھر یہ مقصدجلد پورا ہو جائے گا اور یہ اگر واقعی ملک کو جعلی الیکشنز اور جعلی اسمبلیوں سے بچانا چاہتے ہیں تو پھر انھیں آئینی طریقہ اختیار کرنا چاہیے۔
ہمارے پاس جب دروازہ موجود ہے تو پھر ہم کھمبے کے ذریعے گھر میں داخل ہونے کی کوشش کیوں کر رہے ہیں؟ ہم اپنے ہی گھر کی کھڑکی توڑ کر گھر میں داخل کیوں ہونا چاہتے ہیں؟ میری عمران خان سے درخواست ہے، آپ سسٹم کے اندر رہ کر سسٹم تبدیل کریں، یہ ملک رہنے کے قابل بن جائے گا ورنہ دوسری صورت میں آپ کھمبے سے گر کر فارغ ہو جائیں گے اور یہ نظام اور اس نظام کی بدبو جوں کی توں رہ جائے گی، ملک تبدیلی کے ایک اور موقع سے محروم ہو جائے گا۔

Sunday 30 August 2015

سعودی عرب میں آتشزدگی سے 11 ہلاک، 200 زخمی


سعودی عرب میں حکام کے مطابق ایک رہائشی عمارت میں آتشزدگی کے واقعے میں کم از کم 11 افراد ہلاک اور 200 زخمی ہو گئے ہیں۔
حکام کے مطابق زخمی ہونے والوں میں کئی ممالک کے شہری شامل ہیں اور ان میں سے بعض کی حالت تشویشناک ہے۔
سعودی عرب کے مشرقی شہر ُخبر میں آتشزدگی کا واقعہ سرکاری آئل کمپنی آرامکو کے ملازمین کے زیر استعمال رہائشی کمپلیکس میں پیش آیا۔
سعودی عرب کے ایک ترجمان نے برطانوی خبر رساں ایجنسی روئٹرز کو بتایا کہ متاثرہ عمارت کی چھت پر پھنسے افراد کو نکالنے کے لیے ہیلی کاپٹر استعمال کیے گئے۔
سعودی شہری دفاع کی وزارت نے ایک ٹویٹ میں کہا کہ:’ کئی منزلہ عمارتوں کے ایک زیریں حصے میں کاروں اور فرنیچر کو آگ لگنے کے نتیجے میں ہر طرف دھواں پھیلنے کی وجہ سے امدادی کارروائیوں میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔‘
سعودی عرب میں زیادہ تر کمپنیوں کی طرح آرامکو کے پچاس ہزار سے زیادہ ملازمین میں اکثریت غیر ملکیوں کی ہے۔
آرامکو کے مطابق اس نے آتشزدگی کے واقعے کی تحقیقات شروع کر دی ہیں اور متاثرہ ملازمین کو ہر ممکن مدد فراہم کی جائے گی۔
امریکی خبر رساں ایجنسی اے پی کے مطابق ایک عینی شاہد محمد صدیق نے بتایاکہ انھوں نے اتوار کی صبح مقامی وقت کے مطابق ساڑھے چھ بجے رہائشی کمپلیکس سے دھویں کے بادل اٹھتے دیکھے اور وہاں ہیلی کاپٹر پروازیں کر رہے تھے۔
محمد صدیق کے مطابق انھوں نے کم از کم 30 ایمبولینس اور تین ہیلی کاپٹر دیکھے۔
انھوں نے مزید بتایا کہ رہائشی کمپلیکس میں واقع عمارتیں قدرے نئی ہیں اور ان میں مغربی، ایشیائی اور سعودی شہری رہائش پذیر ہیں جبکہ آرامکو کمپنی کے گارڈز کے پاس اس کی سکیورٹی ذمہ داریاں ہیں۔
سعودی عرب میں اس سے پہلے بھی غیر ملکی ملازمین کی رہائشی عمارتوں میں آتشزدگی کے واقعات پیش آ چکے ہیں۔
رواں سال مئی میں دارالحکومت ریاض میں آتشزدگی کے ایک واقعے میں پانچ پاکستانی ہلاک ہو گئے تھے۔