Monday 31 August 2015

اب تو وہ روزِ قیامت ہی اُٹھے گا

اب بس کردو، کچھ وقت اپنے بیوی بچوں کو بھی دے دو۔ لیکن وہ ہر کسی کو یہ ہی جواب دیتا کہ یہ سب اُنہیں کے لئے تو کر رہا ہوں۔
وہ ماں باپ کا اکلوتا بیٹا تھا، گاؤں کے لحاظ سے اُسکی تعلیم بس واجبی ہی تھی، کیونکہ اُسکا بچپن کھیتوں میں گذرا، شناختی کارڈ پاسپورٹ بنتے ہی ملک سے باہر جانے کی تگ و دو شروع ہوگئی، کسی واقف کار نے ویزہ لگوا دیا۔ تنخواہ کم تھی مگر جذبہ جوان تھا۔ وہ وہاں کام کرتا رہا اور ماں باپ کو پیسے بھیجتا رہتا، سال پر سال گزرتے گئے مگر اُس کے پاس ملک واپس آنے کے لئے ٹکٹ کے پیسے جمع نہ ہوئے۔
ساڑھے چار سال بعد اُدھار لے کر واپس آیا، ماں باپ نے خاندان میں ہی ’’چاند سی بہو‘‘ بھی تلاش کرلی اور پھر منگنی ہوگئی۔ منگنی کرتے ہی وہ واپس چلا گیا۔ اگلی بار واپسی 5 سال بعد ہوئی اور واپسی کے ساتھ ہی اُس کی شادی کردی گئی۔ پہلے منگنی کرکے واپس گیا تھا اب شادی کرکے چلاگیا۔ لیکن وہاں پہنچتے ہی ماں کی موت کی خبر ملی۔ وقت پر فلائیٹ نہ ملنے پر ماں کے جنازہ کو کندھا نہ دے سکا۔ اب ڈیرھ سال ہی گزرا تھا کہ باپ بھی وفات پاگیا۔ باپ کو امانتاً دفن کروایا گیا۔ پیسوں کی ہوس کے سبب وہ ماں باپ دونوں کے جنازوں کو کندھا نہ دے سکا، واپس آکر باپ کا آخری دیدار قبر میں ہی کیا۔
چونکہ اُس کی شادی ہوگئی تھی اب نیا گھر بنانے کی جستجو میں لگ گیا۔ ہر دو سال بعد 30 دن منہ دکھائی کے لئے آتا اور بیوی کو 9 مہینوں کی مصروفیت دے کر چلا جاتا۔ 4 پھیروں اور 8 سال میں، 4 بچے ہوگئے۔ لیکن بیوی تنہائی کی حدت برداشت نہ کرسکی اور سرگوشیاں سرعام تذکروں میں بدلنے لگیں۔ یار دوست اور خیر خواہ دبے الفاظ میں اُسے سمجھانے لگے اور وطن واپس آنے کے مشورے دینے لگے، مگر،
 ’’اُسے اپنی شریکِ حیات پر یقین تھا‘‘
جب والدین اخلاقی طور پر کمزور ہوں تو اولاد کے کردار کو بھی زنگ لگ جاتا ہے، اُس کے تین بیٹے اور ایک بیٹی بھی جوانی کے گھوڑے پر سوار ہوکر جس سمت منہ ہوا دوڑ پڑے، مگر اُسے اپنے بچوں پر بھی یقین تھاـ جب اُسکی ٹھوڑی کے نیچے دوسری ٹھوڑی بھی ابھر آئی، جوانی پگھل کر پکی عمر بن گئی تو لوگوں نے پھر مشورہ دیا کہ اب بس کردو، کچھ وقت اپنے بیوی بچوں کو بھی دے دو۔ لیکن وہ ہر کسی کو یہ ہی جواب دیتا کہ یہ سب اُنہیں کے لئے تو کر رہا ہوں، وہ اچھے اسکول میں پڑھیں، اچھا کھائیں، اچھا پہنیں، اچھے گھر میں رہیں، بچوں کو پیسے کی کمی نہ ہو، کسی کے آگے ہاتھ نہ پھیلانا پڑے، میں اور میرا خاندان عزت سے رہ سکیں۔
مگر اُسے یہ معلوم نہیں تھا، کہ بچے اچھے اسکول میں داخل تو تھے، مگر سر پر باپ کا سایہ نہ ہونے کی وجہ سے اچھا کھا کر، اچھا پہن کر اچھے اسکول کے نام پر وہ کہاں دن گذارتے تھے اُسے کیا معلوم؟ بیوی کو آسائش تو تھی لیکن اس آسائش اور فراوانی نے اُسے کن راہوں کا مسافر بنا دیا تھا۔ اُسے ہاتھ تو کسی کے آگے نہیں پھیلانا پڑا مگر عزت پھر بھی نہ بچی ۔۔۔۔ وہ ساری زندگی دولت کی تاروں سے عزت کی چادر بنتا رہا، اُسے خبر ہی نہ ہوئی کہ عزت کی وہ چادر اُس کے اپنے ہی خاندان کے ہاتھوں کب کی تار تار ہو چکی تھی۔
آج وہ کام سے واپس آیا تو غیر معمولی طور پر خوش نظر آرہا تھا، جلدی جلدی نہایا، کپڑے بدلے، اور کچن میں گھس گیا۔ سالن بنانے کی تیاری شروع کردی، کچن میں کچھ گرنے کی آواز آئی۔
سوچتا ہوں اب اُس کے بچے اچھے اسکول میں کیسے پڑھیں گے؟ اب اُسکی بیوں کو کون آسائش دے گا، وہ آسائش جس لئے اُس نے اپنے دن آگ میں اور رات انگاروں پر گزاردی؟ جس آسائش کے لئے اُس نے اپنے یار دوست، رشتہ دار چھوڑے، ماں باپ لاوارثوں کی طرح آخری سفر پر روانہ ہوئے، جس آسائش کے لئے اُس نے اپنی تمام آسائشوں اور سکون کی قربانی دے دی، اب وہ آسائشیں کون فراہم کرے گا؟
’’کیونکہ محض 40 کے پیٹے میں ہی وہ کچن کے فرش پر ایسا گرا کہ اب تو وہ روزِ قیامت ہی اُٹھے گا‘‘
کیا پیسے کمانے کے لیے گھر والوں سے دور رہنا چاہیے؟

0 comments:

Post a Comment